Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

جنات کا پیدائشی دوست‘علامہ لاہوتی پراسراری

ماہنامہ عبقری - جولائی 2020ء

جنات پر اعتراضات کا خمیازہ
جنات کی زندگی کا ایک اہم پہلوجسے عام طور پر لوگوں کی معلومات کی کمی ہے یا لوگ اس طرف توجہ نہیں کرتے کہ وہ ہمیشہ تعریف کو پسند کرتے ہیں اور اعتراض ‘ شک کو ناپسند کرتے ہیں۔ جو لوگ بھی جنات کے اوپر اعتراض کرتے ہیں واقعات اور مشاہدات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ وہ کسی نہ کسی شکل میں جنات کی پکڑ میں آجاتے ہیں ان کی گرپ میں آجاتے ہیں اور اس گرفت میں ان کے بہت زیادہ نقصانات بہت زیادہ پریشانیاں اور زندگی کے مسائل ان کے لیے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
جنات نے زندگی اجیرن بنادی
ایک صاحب میرے پاس آئے ان کے گھر میں جنات بہت زیادہ بکھرے ہوئے تھے اور ہر چیز پر غالب تھے حتیٰ کہ وہ ہنڈیا پکا کر رکھتے‘ اس میں یا گوبر ڈال دیتے یا مٹی اور ریت ڈال دیتے اور دودھ ہوتا پھٹ جاتا یا پھر دودھ یا رنگ بدل جاتا اور اس کا ذائقہ خراب ہوجاتا۔ اکثر ایسا ہوتا کہ الماری میں سجے برتن رینک وغیرہ میں ہوتے ہیں جو خصوصی مہمانوں کے لیے استعمال میں لائے جاتے ہیں جب ان کو کبھی کبھار اٹھایا جاتا تو اس میں خشک پاخانہ یا کسی بکری کی مینگنیں یا جانور کا گوبر یا انسانی فضلہ ہوتا۔
یہ ایک سلسلہ تھا جو سالہا سال سے ان کے گھر چلا آرہا تھا‘ پہلے انہوں نے اس کو اپنا وہم سمجھا‘ بے احتیاطی سمجھی‘ کسی کی شرارت سمجھی لیکن کب تک وہم ہوتا‘ کب تک بے احتیاطی کب تک شرارت پھر آخرکار کچھ عاملوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا اور عاملوں نے آناجانا شروع کیا۔ بات یہ نکلی کہ یہ کوئی جنات ہیں جو بہت زیادہ تنگ کررہے ہیں‘ ان کے گھر میں بڑا گھر تھا‘ تین فیملیاں رہتی تھیں‘ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ صرف ایک فیملی کے ساتھ ہورہا تھا‘ باقی دو فیملیز کے ساتھ نہیں ہورہا تھا‘ بہت تھکے ہارے میرے پاس آئے تھے‘ ہر طرف سے علاج معالجہ کرکے پیسے مال چیزیں ضائع کرکے آئے تھے۔ جب میں نے ان سے ان کا حال احوال پوچھا تو مجھے کچھ ایسی حقیقت اس میں سے نظر نہ آئی کہ اس کی وجہ آخر کیا ہوسکتی ہے اور اس کی بنیاد کیا ہوسکتی ہے؟ میں بنیاد اور اس کی تہہ تک پہنچنے کی بہت کوشش اور محنت کرتا رہا لیکن اس کی بنیاد تک میں پہنچ نہ سکا۔بہرحال انہیں کچھ اعمال بتائے‘ الحمدللہ!جس سے ان کا مسئلہ حل ہوگیا۔ ان سے شناسائی ہوگئی تو میں نے ایک ملاقات میں ان سے چانک پوچھا کہ مجھے لگتا ہے کہ آپ کا جنات کے ساتھ بہت پرانا تعلق ہے یا آپ کے بڑوں میں سے کوئی ایسا شخص تو نہیں تھا جو جنات کے وجود کا انکار کرتا ہو یا جنات کو کسی انداز سے تنگ کرنے یا اس طرح کے کارناموں کا جھٹلاتے ہوں یا کسی کا کوئی اسی طرح سلسلہ شروع ہوا ہوگا اور انہوں نے اس کا مذاق اڑایا ہو‘ جھٹلایا ہو۔
کیمسٹری کے پروفیسر کاجنات سے انکار
ابھی میری بات پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ ان میں سےایک صاحب کہنے لگے: ہمارے والد صاحب اللہ بخشے فوت ہوگئے ہیں وہ کیمسٹری کے پروفیسر تھے‘ ریٹائرہوئے‘ ہمارے پرانے گھر کے پڑوس میں اس طرح کے واقعات ہوتے تھے اور آنکھوں سے دیکھے بھی تھے لیکن وہ مسلسل مذاق اور اس کو باقاعدہ مذاق کا موضوع بناتے تھے کہ دیکھو کہ سائنس کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور یہ ابھی تک جنات کے ان شعبدوں کے ساتھ لگے ہوئے ہیں حالانکہ یہ ان کی اپنی کوتاہیاں ہیں اپنی کوتاہیوں کا ازالہ نہیں کرتے نفسیاتی الجھنوں میں خود کو مبتلا رکھا ہوا اور بتاتے جنات کا قصور ہے۔ کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا کہ جنات کا کوئی وجود نہیں ہے اور اس کے لیے نامعلوم کہاں کہاں سے وہ دلائل جمع کرکے لے آتے اور اتنے دلائل کہ انسان یہ سمجھتا کہ شاید ساری دنیا میں سب سے زیادہ علم ہے ہی انہی کے پاس۔
جنات کا وجود ہے ہی نہیں! سب دھوکہ ہے!
بہت لمبی لمبی تقاریر کرتے اور لوگوں کو منواتے‘ تسلیم کرواتے‘ کہ جنات کا وجود نہیں ہے‘ یہ سب دھوکہ ہے‘ یہ سب فریب ہے کچھ بھی نہیں سلسلہ چلتا رہا ‘چلتا رہا‘ میرے والد صاحب کی زندگی ہی میں ہمارے گھر میں یہ سلسلہ شروع ہوگیا اور ہمارے گھر کے افراد کے بعض اوقات سب سے پہلے سلسلہ جو شروع ہوا وہ یہ ہوا کہ ان کو بہت زیادہ ٹھوکریں لگنا شروع ہوگئیں‘ کبھی چارپائی سے‘ کبھی دیوار سے‘ کبھی دروازے سے‘ کبھی گھٹنا کبھی پاؤں کبھی کہنی‘ کبھی کندھا ٹھوکریں اتنی خطرناک نہیں ہوتی تھیں لیکن کئی کئی دن ان پر دوائی لگانا پڑتی اور پٹی رکھنا پڑتی۔ ان ٹھوکروں کو بھی کچھ نہ سمجھا گیا ٹھوکروں سے کیا ہوتا ہے؟‘ ٹھوکریں عام معمول ہیں لگ جاتی ہیں‘ لگتی رہتی ہیں‘ انسان کو چوٹیں‘ تکالیف ہوتی رہتی ہیں اس لیے ان ٹھوکروں پر توجہ نہ دی گئی۔
مصیبت اور پریشانی
ایک مرتبہ ہمارے والد صاحب رات کو میں خواب میں آکر کسی نے کہا کہ تم ہمارا مذاق اڑاتے ہو‘ تم نے ہمارے وجود کو جھٹلایا ہے ہم اس وقت تمہیں مرتا نہیں دیکھیں گے جب تک کہ تم ہمارے وجود کے قائل نہ ہوجاؤ اور یہ ٹھوکریں جتنی بھی تمہیں لگ رہی ہیں ہم لگا رہے ہیں‘ ابھی یہ سلسلہ ہم نے ٹھوکروں سے شروع کیا ہے اور ٹھوکروں سے سلسلہ چلتے چلتے تمہارے گھر کے ایک ایک کونے کو تمہارے لیے مصیبت اور پریشانی کا گھر بنادیں گے۔ اس طرح کی بہت دھمکی آمیز باتیں انہوں نے والد صاحب سے بیان کیں لیکن والد صاحب نے ساری عمر سائنس پڑھی تھی حالانکہ سائنس تو ان چیزوں کی واقعی بہت قائل تھی لیکن شاید ان کی نظر اس پر نہیں اٹھی۔ صبح اٹھے تو سب کو جمع کیا اور اس طرح کی باتیں بتائیں اور گھر میں اونچا اونچا قہقہہ لگا کر جنات کو بڑی بڑی گالیاں دیں اور کہنے لگے اگر تم ہو بھی تو ہمارا کچھ نہیں کرسکتے۔ ساری دنیا کو جتنی ٹھوکریں لگ رہی‘ کوئی زخمی ہورہا تم کررہے ہو؟ کسی کی پٹی کسی کا زخم کسی کی چوٹ یہ سب تم کررہے ہو؟
گھر کے سٹور میںزور دار دھماکہ
گھر کے کچھ افراد انہیں روکتے رہے‘ آپ ایسا نہ کریں یہ ٹھوکروں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہمیں کچھ بتارہا کہ سلسلہ کہیں اور سے شروع ہے اور شاید اس کو ہم نہ سنبھال سکیں۔ لیکن والد صاحب کو کچھ سمجھ نہ آئی وہ اپنی ضد پر ڈٹے ہوئے تھے ابھی یہ ساری باتیں ہوہی رہی تھیں اور والد صاحب جنات کو پہلے سے زیادہ چیلنج کررہے تھے اچانک گھر کے آخری کونے میں ایک چھوٹا سا سٹور تھا اس میں دھماکہ کی آواز آئی‘ سب پریشان ہوکر اس طرف بھاگے سٹور کا دروازہ کھولا دیکھا تو اندر ایک بہت بڑا پرانا صندوق تھا جو ہمارے آباؤ اجداد کا بہت مضبوط لوہے کا اس کا دروازہ کھلا ہوا ہے اس انداز سے کھلا ہے کہ جیسے کسی نے کھینچ کر اندر سے توڑا ہو اور اس کے اندر کی تمام چیزیں بکھری ہوئی ہیں اور ٹکڑے ٹکڑے ہوئی پڑی ہیں‘ ایسے ہے جیسے کسی نے صندوق میں کوئی بارود رکھ دیا ہو اور وہ ایک دم پھٹا ہو صندوق کے اوپر کے حصہ کے ٹکڑے ٹکڑے کردئیے اور سامان سارا بکھر گیا۔
پہلی مرتبہ والد صاحب سہم گئے
جب والد صاحب نے یہ دیکھا تو پہلی مرتبہ ان کےچہرے پر گھبراہٹ اور سہم گئے تھے اب سب گھر والے پریشان اور اچانک ہماری پھپھو جو بوڑھی مگر بہت سمجھدار تھی‘ انہوں نے والدصاحب کومشورہ دیا کہ آپ یہیں کھڑے کھڑے ان سے معافی مانگ لیںاور اللہ سے توبہ کرلیں‘ مگر والد صاحب اپنی انا پر اڑ گئے کہ میں معافی نہیں مانگوں گا۔ اگر ان کے پاس طاقت ہے تو میرے پاس بھی طاقت ہے اور والدصاحب نے پھپھو کے کہنے پر آیت الکرسی پڑھنا شروع کردی۔وہ مزید بتانے لگے: اس وقت پتہ چلا کہ آیۃ الکرسی اللہ کا کلام ہے مگرجس نے ساری عمر اعمال‘ نماز‘ تسبیح ذکر کی طرف توجہ نہ کی ہو اس کی آیۃ الکرسی وہ تاثیر نہیں رکھتی ‘وہ شخص جس نے اعمال‘ تسبیحات‘ ذکر اور آیۃ الکرسی پڑھی ہو اس کی پڑھی آیۃ الکرسی تاثیر رکھتی ہے۔ انہوں نے پڑھا لیکن انہیں اب ایک احساس ہوگیا کہ جنات کا وجود ہے اور جنات کی حقیقت ہے۔ جنات کا غصہ‘ جنات کا انتقام ان ساری چیزوں کی حقیقت واضح ہوگئی۔
ہماری پریشانی کے دن شروع
لیکن وہ دن ہمارے لیے بہت پریشان دن تھا‘ بس اس دن کے بعد جنات کا انتقام بہت زیادہ شروع ہوگیا۔ حد سے زیادہ ہمارے لیے مسائل‘ مشکلات اور پریشانیاں بڑھنا شروع ہوگئیں کوئی دن ایسا نہیں گزرتا تھا کہ ہماری مشین‘ استری‘ پنکھا‘ موٹر یا گھر کی کوئی نہ کوئی چیز خراب نہ ہوتی ہو۔ بڑے بڑے مکینک اور مستری آتے ٹھیک کرکر کے پاگل ہوجاتے حیران ہوجاتے اتنا چھوٹا سا پنکھا ہے بناتے ہیں‘ چلاتے ہیں تو چلتا نہیں چلتا ہے تو پھر خراب ہوجاتا ہے۔ پھر بناتے ہیں پھر سنبھالتے ہیں حتیٰ کہ وہ تھک گئے اور بہت زیادہ بیزار ہوگئے۔مستریوں نے ہمارے گھر رخ کرنا چھوڑ دیا اور ایک بات مشہور ہوگئی کہ ان کے گھر میں جو کاریگر مستری مرمت کرنے جاتا ہے تو اس کے کندھے پکڑے جاتے ہیں اعصاب کھچ جاتے ہیں‘ ٹانگیں پکڑی جاتی ہیں یا اسے بخار ہوجاتا ہے یا بیمار ہوجاتا ہے یا اس کا کوئی نقصان ہوجاتا ہے اور یہ حقیقت تھی‘ ایسا ہی ہوتا تھا۔
اب عالم یہ ہوا کہ ہمارے گھر میں کئی کئی راتیں پنکھے کے بغیر‘ اے سی کے بغیرگزرتیں۔ کئی کئی ہفتوں ایسے ہوتا تھا فریج گھر میں پڑا ہے لیکن خراب ہے‘ ٹھیک کروایا پیسہ خرچ کیا مگر پھر خراب ہوگیا۔ ہمارا گھر ویرانی میں‘ پریشانی میں‘ مشکلات میں‘ ہمیں بعض اوقات بستر سے اٹھا کر نیچے پھینک دیا جاتا‘ نامعلوم ایک رات کیا ہوا ان کے دل میں آیا اور اٹھ کر زور زور سے گڑگڑا کر جنات سے معافی مانگنے لگے‘ روتے رہے‘ معافی مانگتے رہے بہت زیادہ رو رہے تھے ‘اس رات ان کا رونا معافی مانگنا حیرت انگیز تھا‘ کمرہ بند تھا‘ ہمیں آوازیں آرہی تھیں۔
جنات کے آگے رونا‘ سسکنا اور معافی
زندگی میں ہم نے انہیں اتنا روتا سسکتا اور معافی مانگتا نہیں سنا تھا جتنا کہ اس رات سنا۔ کئی گھنٹے تک روتے رہے اور جنات سے معافی مانگتے رہے۔ مہربانی کریں آپ کو میں نے ستایا ہے‘ بے عزت کیا ہے‘ آپ اب ہمیں معاف کردیں‘ اور ہمارا جتنا نظام بگاڑا ہے اس کو بھی بنادیں ہم بہت پریشان ہیں حتیٰ کہ والدصاحب معافی مانگتے مانگتے بے ہوش ہوگئے جبکہ ہم سمجھے کہ سوگئے ہیں۔ صبح پتہ چلا کہ بیہوش پڑے تھے‘ ہسپتال لے گئے‘ کئی گھنٹوں کے بعد ہوش میں آئے‘ پھر انہوں نے سارے حالات بتائے گزشتہ ساری رات میں نے جنات سے گڑگڑاتے روتے معافی مانگتے گزاری ہے۔
تین ہفتے معافیاں مانگنے کے بعد پھر کیا ہوا؟
اس کا جو نتیجہ ہمیں ملا کہ ان جنات کے اندر کچھ نرمی آئی‘ اورپھر ہم نے معمول بنالیا ‘روزانہ سارے بیٹھ کر اجتماعی طور پر ان سے معافیاں مانگتے تھے‘ زاریاں کرتے تھےاور بہت زیادہ معافی مانگتےاور ان سے کہتے کہ آپ ہمیں معاف کردیں‘ دو تین ہفتے یہ سلسلہ چلتا رہا‘ ان دو تین ہفتوں میں صرف چند واقعات نقصانات کے ہوئے باقی سب ٹھیک رہا۔ پھر اگر نقصان ہوا بھی تو وہ بہت جلد بہتر ہوجاتا تھا بہترین ہوجاتا تھا۔ ایک دن والد صاحب صبح اٹھے تو بہت خوش تھے۔
جناتی قافلہ اور دوستی کا ہاتھ
فرمانے لگے : رات کو میرے پاس کچھ لوگ آئے ہیں اور میں نے ان کے سامنے معافی مانگی ہے‘ مجھ سمجھ آگئی تھی کہ یہ وہی لوگ ہیں‘ بہت بڑا انسانوں کی شکل میں قافلہ آیا تھا‘ میں معافی مانگتا رہا‘ ان کے پاؤں پر ہاتھ جوڑے‘ ان کے گھٹنوں پر ہاتھ رکھے‘ وہ سب خاموش تھے اور ان کی آنکھوں سے شعلے برس رہے تھے‘ آخرکار انہوں نے کہا کہ آپ کا سارا گھرانہ اتنے ہفتوں سے معافی مانگ رہا ہے‘ ہم نے آپ کو معاف کیا اور آئندہ احتیاط کرنا ‘کبھی بھی کسی جن کی توہین نہ کرنا‘ ذلیل نہ کرنا‘ رسوا نہ کرنا‘ ان کا مذاق نہ اڑانا اور ان کو تکلیف نہ دینا ‘ورنہ پھر ان کے انتقام کا سلسلہ چل پڑتا اور ایسا کہ نہ ختم ہونے والا ہوتا ہے‘ والدصاحب یہ باتیں ہمیں بتارہے تھے‘ ہم خوش ہورہے تھے۔
آئندہ آپ کو کبھی نہ ستاؤں گا
والد صاحب نے مزید فرمایا:میں نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ آئندہ کبھی بھی آپ کو میں نہیں ستاؤں گا‘ میری نسلیں بھی آپ کی عزت کریں گی‘ آپ کا احترام کریں گی اور میری نسلیں بھی آپ کو بُرا بھلا نہیں کہیں گی اور کہا کہ میں نے ان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا تو ان کے بڑے نے میرے ہاتھوں میں ہاتھ دیا‘ اب بھی ان کے ہاتھوں کا انداز اور کیفیت میرے ہاتھ محسوس کررہے ہیں۔ کہنے لگے: وہ دن اور آج کا دن ہمارے گھر سے مصائب دور ہوئے‘ پریشانیاں دور ہوئیں‘ الجھنیں ختم ہوئیں‘ ناکامیاں ختم ہوئیں اور پریشانیاں ذلتیں خیر میں بدل گئیں اور ہم خوشحال ہوگئے‘ ہم روز ان کا شکریہ ادا کرتے ‘ ان کی طرف سے ہمیں بعض اوقات تحائف بھی ملتے ‘ کبھی پھل ملتے‘ کبھی پھول ملتے ‘ کبھی عطر( خوشبو) کی کوئی شیشی ملتی‘ یہ سلسلہ ہمارے اس گھر میں اب بھی جاری ہے۔ بعض اوقات ہم کہیں الماری دروازہ کھلا چھوڑ دیتے جہاں سے کوئی چیز چرائے جانے یا نقصان ہونے کا خطرہ ہوتا وہ ہمیں اس کی اطلاع بھی کرتے اور انہوں نے ہماری معافی کو بھی قبول کیا اور ہمارے بڑے ہوئے دوستی کے ہاتھ کو بہت زیادہ محبت سے لیا اور پیار دیا۔ (جاری ہے)

Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 312 reviews.